''میں جمہوریت، اپوزیشن ڈاکو''
ویب ڈیسک | ۳ ماہ پہلے

امتیازعالم:
محترم وزیراعظم عمران خان کے وکلا کے جلسے سے خطاب کی یہ سرخی ''میں جمہوریت، اپوزیسن ڈاکو'' جنگ اخبار کی ہیڈلائن بی۔ ذرازیلی سرخیوں کی جھلک بھی دیکھ لی جائے: ''فوج نے ہر جگہ ہماری مدد کی''، ''انہیں (یعنی اپوزیشن) ہی فوج سے مسئلہ ہوتا ہے، مجھے کیوں نہیں، کہ وہ جانتی ہے کہ میں کیسی زندگی گزار رہا ہوں''، ''فوج چوروں کو جانتی ہے''، ISI'' کو کمیشن لینے یامنی لانڈرنگ کرنے والوں کا پتہ ہے''، جتنے مرضی جلسے جلوس کریں، قانون توڑا تو عام لوگوں والی جیل جائیں گے''، ''لیگی کارکن ان سے پیسے لیں اور قیمے والے نان کھائیں لیکن گھر بیٹھیں'' استئفی مانگنے پر نواز شریف خاموش بیٹھ گئے کیونکہ جنرل ظہیر الاسلام کو ان کی چوری کا علم تھا''، ''لوگ نظریے کے لیے بھار نکلتے ہیں، کسی کی چوری بچانے کے لیے نہیں''۔ ایک ایک سرخی پر سردھنیے یا سر پیٹئے، وزیراعظم کے منہ سے نگلی ہوئی باتیں اپوزیشن کے موقف کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔ ''میں جمہوریت'' نہیں ہوتی جب تک یہ سب کے لیے ایک سی آزادی اور حقوق کی ضامن نہ ہو۔ فرد کی آزادی کی بنیاد پر قائم جمہوریت پورے معاشرے کے جمہوری ہونے کی ضمانت دیتی ہے اور ''میں'' سے شروع ہوکر ''میں'' پر ختم نہیں ہوتی۔ اور ''میں میں'' خودستائشتی کے سوا کچہ نہیں اس میں '' جمہوریت'' کے جوبھی مقابل ہے وہ ''ڈاکو'' ہے، بھلے ''میں'' کو لانے میں جمہوری عمل کا سرقہ ہی نہ کیا گیا ہو. ''میں'' صحیح، باقی سب غلط، شخصیت پسندی بلکہ خود پسندی کی وہ بیماری ہے جس میں مبتلا شخص کسی کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا۔ وہ عقل کل ہے اور وہی آخری سچ بھی۔ اس کیفیت میں مبتلا شخس علم نفسیات کی لغت میں فروغ دروغ گوئی (Pseudologia Fantastica) کہا جاتا ہے۔ پیتھو لاجیکل جھوٹا۔ اب ذرا ''میں'' سے آگے چلتے ہیں ''فوج نے ہر جگہ ہماری مدد کی'' کا اعتراف اپوزیشن کے الزام ہی کی تصدیق نہیں تو کیا ہے؟ ''isi'' کو کمیشن لینے یا منی لانڈرنگ کرنے والوں کا پتہ ہے'' یہ کہ کر کیا وزیراعظم کرپشن کے نام پر اپوزیشن کے خلاف چلائی گئی مہم کا بوجھ اس پر نہں ڈال رہے؟ اور کیا وزیرارعظم یہ کہہ کر کہ ''استعفی مانگنے پر نواز شریف خاموش بیٹھ گئے کیوںکہ جنرل ظھیر السلام (DGISI) کو ان کی چوری کا پتہ تھا''، نواز شریف ہی کے بیانیہ کی تصدیق نہیں کررہے کہ ان کے خلاف عمران خان کے دھرنے میں ان کا ہاتھ تھا۔ یہ بہت بڑا الزام ہے کہ ISI کا چیف وزیراعظم سے ستعفی مانگنے کی جسارت کرے اور اگر کسی نے ایسی جرات عمران خان کے بقول ان کے ساتھ کی ہوتی تو وہ اسے نوکری سے برخاست کردیتے۔ اپوزیشن بھی تو یہی کہہ رہی ہے کہ ادارے اپنے آئینی اور ادارہ جاتی دائرے میں رہیں۔ ISI دنیا کی کمال کی خفیہ ایجنسیوں میں ٹاپ پر نظر آتی ہے کہ یہ پاک افواج کے دشمن کے عقب میں ففتھ کالم کے طور پر برسرعمل رہ کر ملکی دفاع کے لیے گونا گو خدمات انجام دعے رہے ہے۔ اب ہمیں یہ وزیراعظم سے معلوم پڑرہا ہے کہ اس کے فرائض کا دائرہ کتنا کشاہ ہے۔ یقینا پھر تو اسے یہ بھی معلوم ہوگا جیسا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ''وہ جانتی ہے، میں کیسے زندگی گزر رہھا ہوں''۔ لوگوں کی ذاتی زندگیوں پہ نظر رکھنا بھی تو کہیں سلامتی کے تقاضوں کی ضرورت نہ ہو، اس پر کوئی کیا کہے۔ اب تو دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے بل پر ڈیجیٹل مطلق انسانیت قائم کی جارہی ہے۔ کووڈ کی عالمی وبا نے اس کی راہ تیزی سے ہموار کی ہے۔ اب ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شہری بارے تمام تر معلومات ریاست کے پاس ہیں اور عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز گوگل، فیس بک، ٹویٹر ودیگر پلیٹ فارمز کے ذریعہ دنیا بھر کے لوگوں کا ڈیٹا جمع ہوتا جارہا ہے جس سے کوئی بھی انٹیلی جنس ایجنسی پورا پورا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ آج کل چین کی پیروی کرتے ہوئے ہماری ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ودیگر ادارے شہریوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہائبرڈ وارفیئر کے اس دار میں دنیا بھر کی ایجنسیاں ایک دسرے کو مات دینے میں سرگرم ہیں اور جس سے امریکی انتخابات بھی محفوظ نہیں۔
ہمارے وزیراعظم کی جمہوریت کے کیا معنی ہیں، ان کے بیان کے اس حصے سے صاف ظاھر ہے۔ ''قانوں توڑا تو عام لوگوں والی جیل جائیں گے'' اور کرپشن کے خلاف ہمارے مجاہد اول نے لیگی کارکنوں کو ترغیب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''لیگی کارکن ان سے پیسے لیں، قیمے والے نان کھاہیں اور گھر بیٹھیں''۔ سیاسی رشوت کی یہ تھوک تجویز سیاسی کارکنوں کو کرپشن میں حصہ مانگنے پر اکساتی ہے۔ جانے وزیراعظم کیوں اتنے سٹپٹاگئے ہیں۔ اپوزیشن اور وزیراعظم کے مابین اس محاذ آرائی میں ہر طرح کا ایندھن اور گولے استعمال ہورہے ہیں۔ دونوں اطراف کے بیانات تیسری نظر نہ آنے والی پارٹی کو اپنے یدھ مین کھسیٹتے جارہے ہیں۔ اس کھلی جنگ میں ہر حربہ استعمال ہوریا ہے، وانونی بھی اور غیرقانونی بھی۔ جو موضوع ممنوع تھے اور ہونٹوں کی ہچکچاہٹ میں گلے میں پھنس کررہ جاتے تھے۔ آج کو چہ وبازار میں زیربحث ہیں۔ بات جہاں سے شروع ہوتی ہے۔ جانے کس انجام کی جانب رواں ہوجائے اور تمام پارٹیاں ادارے ہاتھ ملے رہ جائیں۔ سیاست کی یہ لڑائی جانے کس انجام کو پنہچے۔ اپوزیشن نے تو طبل جنگ بجایا ہی ہے، وزیراعظم اور ان کے وزرا روز اسے مزید اکسانے پہ لگے ہیں۔ یوں وہ اپوزیشن ہی ک مقصد کو پورا کررہے ہیں۔ آگ ہے کہ دونوں جانب برابر لگی ہوئی اور تیسری تکڑی پارٹی تماشہ دیکھا کیئے۔

''میں جمہوریت، اپوزیشن ڈاکو''
ویب ڈیسک | ۳ ماہ پہلے

امتیازعالم:
محترم وزیراعظم عمران خان کے وکلا کے جلسے سے خطاب کی یہ سرخی ''میں جمہوریت، اپوزیسن ڈاکو'' جنگ اخبار کی ہیڈلائن بی۔ ذرازیلی سرخیوں کی جھلک بھی دیکھ لی جائے: ''فوج نے ہر جگہ ہماری مدد کی''، ''انہیں (یعنی اپوزیشن) ہی فوج سے مسئلہ ہوتا ہے، مجھے کیوں نہیں، کہ وہ جانتی ہے کہ میں کیسی زندگی گزار رہا ہوں''، ''فوج چوروں کو جانتی ہے''، ISI'' کو کمیشن لینے یامنی لانڈرنگ کرنے والوں کا پتہ ہے''، جتنے مرضی جلسے جلوس کریں، قانون توڑا تو عام لوگوں والی جیل جائیں گے''، ''لیگی کارکن ان سے پیسے لیں اور قیمے والے نان کھائیں لیکن گھر بیٹھیں'' استئفی مانگنے پر نواز شریف خاموش بیٹھ گئے کیونکہ جنرل ظہیر الاسلام کو ان کی چوری کا علم تھا''، ''لوگ نظریے کے لیے بھار نکلتے ہیں، کسی کی چوری بچانے کے لیے نہیں''۔ ایک ایک سرخی پر سردھنیے یا سر پیٹئے، وزیراعظم کے منہ سے نگلی ہوئی باتیں اپوزیشن کے موقف کے لیے تقویت کا باعث ہیں۔ ''میں جمہوریت'' نہیں ہوتی جب تک یہ سب کے لیے ایک سی آزادی اور حقوق کی ضامن نہ ہو۔ فرد کی آزادی کی بنیاد پر قائم جمہوریت پورے معاشرے کے جمہوری ہونے کی ضمانت دیتی ہے اور ''میں'' سے شروع ہوکر ''میں'' پر ختم نہیں ہوتی۔ اور ''میں میں'' خودستائشتی کے سوا کچہ نہیں اس میں '' جمہوریت'' کے جوبھی مقابل ہے وہ ''ڈاکو'' ہے، بھلے ''میں'' کو لانے میں جمہوری عمل کا سرقہ ہی نہ کیا گیا ہو. ''میں'' صحیح، باقی سب غلط، شخصیت پسندی بلکہ خود پسندی کی وہ بیماری ہے جس میں مبتلا شخص کسی کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا۔ وہ عقل کل ہے اور وہی آخری سچ بھی۔ اس کیفیت میں مبتلا شخس علم نفسیات کی لغت میں فروغ دروغ گوئی (Pseudologia Fantastica) کہا جاتا ہے۔ پیتھو لاجیکل جھوٹا۔ اب ذرا ''میں'' سے آگے چلتے ہیں ''فوج نے ہر جگہ ہماری مدد کی'' کا اعتراف اپوزیشن کے الزام ہی کی تصدیق نہیں تو کیا ہے؟ ''isi'' کو کمیشن لینے یا منی لانڈرنگ کرنے والوں کا پتہ ہے'' یہ کہ کر کیا وزیراعظم کرپشن کے نام پر اپوزیشن کے خلاف چلائی گئی مہم کا بوجھ اس پر نہں ڈال رہے؟ اور کیا وزیرارعظم یہ کہہ کر کہ ''استعفی مانگنے پر نواز شریف خاموش بیٹھ گئے کیوںکہ جنرل ظھیر السلام (DGISI) کو ان کی چوری کا پتہ تھا''، نواز شریف ہی کے بیانیہ کی تصدیق نہیں کررہے کہ ان کے خلاف عمران خان کے دھرنے میں ان کا ہاتھ تھا۔ یہ بہت بڑا الزام ہے کہ ISI کا چیف وزیراعظم سے ستعفی مانگنے کی جسارت کرے اور اگر کسی نے ایسی جرات عمران خان کے بقول ان کے ساتھ کی ہوتی تو وہ اسے نوکری سے برخاست کردیتے۔ اپوزیشن بھی تو یہی کہہ رہی ہے کہ ادارے اپنے آئینی اور ادارہ جاتی دائرے میں رہیں۔ ISI دنیا کی کمال کی خفیہ ایجنسیوں میں ٹاپ پر نظر آتی ہے کہ یہ پاک افواج کے دشمن کے عقب میں ففتھ کالم کے طور پر برسرعمل رہ کر ملکی دفاع کے لیے گونا گو خدمات انجام دعے رہے ہے۔ اب ہمیں یہ وزیراعظم سے معلوم پڑرہا ہے کہ اس کے فرائض کا دائرہ کتنا کشاہ ہے۔ یقینا پھر تو اسے یہ بھی معلوم ہوگا جیسا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ''وہ جانتی ہے، میں کیسے زندگی گزر رہھا ہوں''۔ لوگوں کی ذاتی زندگیوں پہ نظر رکھنا بھی تو کہیں سلامتی کے تقاضوں کی ضرورت نہ ہو، اس پر کوئی کیا کہے۔ اب تو دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے بل پر ڈیجیٹل مطلق انسانیت قائم کی جارہی ہے۔ کووڈ کی عالمی وبا نے اس کی راہ تیزی سے ہموار کی ہے۔ اب ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شہری بارے تمام تر معلومات ریاست کے پاس ہیں اور عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز گوگل، فیس بک، ٹویٹر ودیگر پلیٹ فارمز کے ذریعہ دنیا بھر کے لوگوں کا ڈیٹا جمع ہوتا جارہا ہے جس سے کوئی بھی انٹیلی جنس ایجنسی پورا پورا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ آج کل چین کی پیروی کرتے ہوئے ہماری ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ودیگر ادارے شہریوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہائبرڈ وارفیئر کے اس دار میں دنیا بھر کی ایجنسیاں ایک دسرے کو مات دینے میں سرگرم ہیں اور جس سے امریکی انتخابات بھی محفوظ نہیں۔
ہمارے وزیراعظم کی جمہوریت کے کیا معنی ہیں، ان کے بیان کے اس حصے سے صاف ظاھر ہے۔ ''قانوں توڑا تو عام لوگوں والی جیل جائیں گے'' اور کرپشن کے خلاف ہمارے مجاہد اول نے لیگی کارکنوں کو ترغیب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''لیگی کارکن ان سے پیسے لیں، قیمے والے نان کھاہیں اور گھر بیٹھیں''۔ سیاسی رشوت کی یہ تھوک تجویز سیاسی کارکنوں کو کرپشن میں حصہ مانگنے پر اکساتی ہے۔ جانے وزیراعظم کیوں اتنے سٹپٹاگئے ہیں۔ اپوزیشن اور وزیراعظم کے مابین اس محاذ آرائی میں ہر طرح کا ایندھن اور گولے استعمال ہورہے ہیں۔ دونوں اطراف کے بیانات تیسری نظر نہ آنے والی پارٹی کو اپنے یدھ مین کھسیٹتے جارہے ہیں۔ اس کھلی جنگ میں ہر حربہ استعمال ہوریا ہے، وانونی بھی اور غیرقانونی بھی۔ جو موضوع ممنوع تھے اور ہونٹوں کی ہچکچاہٹ میں گلے میں پھنس کررہ جاتے تھے۔ آج کو چہ وبازار میں زیربحث ہیں۔ بات جہاں سے شروع ہوتی ہے۔ جانے کس انجام کی جانب رواں ہوجائے اور تمام پارٹیاں ادارے ہاتھ ملے رہ جائیں۔ سیاست کی یہ لڑائی جانے کس انجام کو پنہچے۔ اپوزیشن نے تو طبل جنگ بجایا ہی ہے، وزیراعظم اور ان کے وزرا روز اسے مزید اکسانے پہ لگے ہیں۔ یوں وہ اپوزیشن ہی ک مقصد کو پورا کررہے ہیں۔ آگ ہے کہ دونوں جانب برابر لگی ہوئی اور تیسری تکڑی پارٹی تماشہ دیکھا کیئے۔
Web Portal Developed and Designed by MIT SOFTWARE SOLUTION Hyderabad : http://mitsoftsolution.net, Contact us : (022) 3411371
