میرا جسم میری مرضی
ویب ڈیسک | ۱۲ ماہ پہلے

نعیم فاطمہ: دو دن سے مسلسل چلنے والی بحث رویوں اور سوچ کے اختلاف سے ہٹ کر کچھ اور ہوگی ہے۔ خلیل الرحمٰن قمر اور ماروی سرمد کے ہونے والے مکالمے نے مختلف سوچوں کو زہنی تصورات سے باہر نکل آنے کا موقع دیا ہے۔
میرا جسم میری مرضی کو اردو کے چار لفظوں پر مشتمل ایک سوچ ایک آئیڈیالوجی سے ہٹ کر کہیں ایک گالی اور کہیں ایک تبدیلی کے ایجنٹ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور وہاں مجھ جیسے معتدل اور درمیانی سوچ کے لوگ پریشان ہیں کہ دونوں طرف شدت پسندی ہے۔
تو سوچا اپنا سچ بول کر، چیخ کر توانائی کو ضائع کرکے بیان کرنے کے بجائے اُسے خوبصورت لفظوں کے پیراہن میں ڈھال کر پیش کیا جائے۔
پہلے تو بات ہے اِس نعرے کی "میرا جسم میری مرضی" اگر سائنس کی مختلف شاخوں کے حساب سے انگریزی کے لفظ Body کا ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب جسم ہی نکلتا ہے اور جب کوئی ڈاکٹر کہتا ہے کہ آپ کا جسم اِس بیماری کی وجہ سے کھوکھلا ہوگیا تاہم جسمانی کمزوری ہے جب کوئی مولوی کہتا ہے کہ مجرم کا جسمانی ریمانڈ میں لیا جائے یا اُس کے جسم پر تشدد کیا گیا تو ہمیں یہ لفظ واہیات نہیں لگتا۔
جب شاعر اور ادیب حضرات اسی لفظ جسم کا استعمال اپنی محبوبہ کی خوبصورتی بیان کرنے کے لئے کرتے ہیں، جب مشہور کلام آفریں آفریں میں کہا جاتا ہے کہ "جسم جیسے اجنتا کی مورت کوئی، جسم نغمہ کوئی جسم جادو کوئی" کہا جاتا ہے اور سامعین جھوم جھوم جاتے ہیں یا سب سے بڑھ کر حکیموں اور یونانی ادویات کے پیکٹ پر اشتہار پر باتصویر اسی لفظ کا استعمال ہوتا ہے تو ہم میں سے کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتا، پوسٹ نہیں لگاتا، کبھی نہیں کہتا کہ یہ واہیات لفظ ہے بے حیائی کا مظہر ہے۔
پر جب اِس کے ساتھ لفظ مرضی لگا کر عورت نے استعمال کیا تو یہ گالی ہوگیا، بے حیائی ہوگیا، لعنت ہوگیا، یہودیوں کی چال اور سازش ہوگیا قبر کا عذاب ہوگیا۔ جب کہ قبر کا عذاب بیان کرتے ہوئے مولوی صاحب بھی سُر اور لے کے ساتھ اس لفظ کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہارا جسم کیڑے کھائیں گے۔
اُن مولوی صاحب کو کسی نے نہیں کہا کہ یہ لفظ نامناسب ہے کوئی اور لفظ استعمال کریں اس سے صرف جنسی خواہش کا خیال آتا ہے۔ قصور لفظ استعمال کرنے والوں کا ہے یا سمجھنے والوں کا؟
آپ اِس لفظ کو ماروی سرمد کے ذاتی عقائد یا کردار سے جوڑ کر گالی بنا رہے ہیں تو پھر آپ کی سوچ کو سات سلام۔ بہت سے لوگوں نے اِس نعرے کے پیچھے کی مثبت سوچ یا مطالبات کو واضح بھی کیا پر پھر بھی ہم لکیر کے فقیر رہے، بس جسم کہا تو جنسی خواہش سے جوڑ دو۔
میرا جسم ہو یا میرا وجود اُس پر حق تو میرا ہی ہے نہ۔ کیا رب کائنات نے ہر انسان کو عقل و شعور کے ساتھ پیدا نہیں کیا؟
انگور کا پھل رب نے تخلیق کیا اور لوگوں نے اُس سے شراب بھی بنائی اور سرکہ بھی، سوچ کا عمل دخل ہے نہ۔ اِس نعرے کو مثبت رُخ سے دیکھیں تو آپ کو وہ بچیاں نظر آئیں گئ جو کبھی کم عمری کی شادی، کبھی جبری مشقت، کبھی ملکوں کے تشدد, کبھی وٹّہ سٹّہ کی شکار ہوئیں۔
ہمیں یہاں وہ عورتیں نظر آئیں گی جو گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں اور اُن کا جسم نہ ختم ہونے والے درد کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ یہاں ہمیں وہ عورتیں نظر آئیں گی جو کبھی کھانے میں دیر کبھی سالن ٹھنڈے ہونے اور کبھی سحری میں نہ جاگنے کے چھوٹے جرم کی پاداش میں مار دی گئیں۔ اِس لفظ کے پیچھے کئی زینب، کئی حوض نور، کئ شازیہ اور ان گنت ایسے نام نظر آئیں گے جن کے معصوم جسموں کو صرف اپنی جنسی خواہش کی تسکین کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
کتنی عورتیں ایسی نظر آئیں گی جو بنا کسی صحت کی سہولت کے حصول کے زچگی کے دوران موت کی آغوش میں چلی گئیں، جن کو بنا کسی وقفے کے بچے پیدا کرنے پر اِس لئے مجبور کیا گیا کہ وہ بیٹیاں پیدا کرنے کی سزاوار تھیں اور شوہر اور سسرال والوں کو بیٹا چاہیے تھا۔ یہاں ہمیں ڈاکٹر نمرتا کی لاش بھی نظر آئے گی جس کی آنکھوں میں کئی خواب بجھ گئے، کئ ایسی لڑکیاں نظر آئیں گی جن کو اُن کی مرضی کے خلاف بیاہ دیا گیا۔
وہ عورتیں اور بچیاں بھی نظر آئیں گی جو گھر سے تعلیم حاصل کرنے یا روزی کمانے نکلیں اور انہیں ہراسمنٹ کا شکار بنایا گیا۔ وہ لڑکیاں نظر آئیں گی جنہوں نے کسی سے شادی سے انکار کیا گیا اور اُن کو تیزاب سے جلا دیا گیا۔ مرضی کا مطلب ہی میری چھوٹی سی عقل میں یہ آیا کہ میری نہ کو قبول کیا جائے، میری حفاظت کو اہمیت دی جائے، مجھے تمام تشدد سے دور رکھا جائے، یہ سمجھا جائے کہ میرے جسم کو میں ان طریقوں، رویوں اور سوچوں کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتی تو یہ میری مرضی ہے۔
نکاح بھی تو اسی مرضی کا نام ہے تو کیوں مرضی کو زنا سے تشبیہ دیا جائے نکاح سے نہیں۔ آپ ماروی سرمد یا کسی اور فیمنسٹ کے نظریے یا اُس کے کام کو نا پسند کریں آپ کی مرضی،عورت مارچ میں نہ جائیں آپ کی مرضی اُس کے خلاف ہوں آپ کی مرضی پر سوچ کو الفاظ کو کسی کے ذاتی کردار سے جوڑ کر منفی اثرات نہ پھیلائیں، جینے دیں۔ میری مرضی کی حقیقت کو خانجنگی نہ بنائیں۔

میرا جسم میری مرضی
ویب ڈیسک | ۱۲ ماہ پہلے

نعیم فاطمہ: دو دن سے مسلسل چلنے والی بحث رویوں اور سوچ کے اختلاف سے ہٹ کر کچھ اور ہوگی ہے۔ خلیل الرحمٰن قمر اور ماروی سرمد کے ہونے والے مکالمے نے مختلف سوچوں کو زہنی تصورات سے باہر نکل آنے کا موقع دیا ہے۔
میرا جسم میری مرضی کو اردو کے چار لفظوں پر مشتمل ایک سوچ ایک آئیڈیالوجی سے ہٹ کر کہیں ایک گالی اور کہیں ایک تبدیلی کے ایجنٹ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور وہاں مجھ جیسے معتدل اور درمیانی سوچ کے لوگ پریشان ہیں کہ دونوں طرف شدت پسندی ہے۔
تو سوچا اپنا سچ بول کر، چیخ کر توانائی کو ضائع کرکے بیان کرنے کے بجائے اُسے خوبصورت لفظوں کے پیراہن میں ڈھال کر پیش کیا جائے۔
پہلے تو بات ہے اِس نعرے کی "میرا جسم میری مرضی" اگر سائنس کی مختلف شاخوں کے حساب سے انگریزی کے لفظ Body کا ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب جسم ہی نکلتا ہے اور جب کوئی ڈاکٹر کہتا ہے کہ آپ کا جسم اِس بیماری کی وجہ سے کھوکھلا ہوگیا تاہم جسمانی کمزوری ہے جب کوئی مولوی کہتا ہے کہ مجرم کا جسمانی ریمانڈ میں لیا جائے یا اُس کے جسم پر تشدد کیا گیا تو ہمیں یہ لفظ واہیات نہیں لگتا۔
جب شاعر اور ادیب حضرات اسی لفظ جسم کا استعمال اپنی محبوبہ کی خوبصورتی بیان کرنے کے لئے کرتے ہیں، جب مشہور کلام آفریں آفریں میں کہا جاتا ہے کہ "جسم جیسے اجنتا کی مورت کوئی، جسم نغمہ کوئی جسم جادو کوئی" کہا جاتا ہے اور سامعین جھوم جھوم جاتے ہیں یا سب سے بڑھ کر حکیموں اور یونانی ادویات کے پیکٹ پر اشتہار پر باتصویر اسی لفظ کا استعمال ہوتا ہے تو ہم میں سے کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتا، پوسٹ نہیں لگاتا، کبھی نہیں کہتا کہ یہ واہیات لفظ ہے بے حیائی کا مظہر ہے۔
پر جب اِس کے ساتھ لفظ مرضی لگا کر عورت نے استعمال کیا تو یہ گالی ہوگیا، بے حیائی ہوگیا، لعنت ہوگیا، یہودیوں کی چال اور سازش ہوگیا قبر کا عذاب ہوگیا۔ جب کہ قبر کا عذاب بیان کرتے ہوئے مولوی صاحب بھی سُر اور لے کے ساتھ اس لفظ کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہارا جسم کیڑے کھائیں گے۔
اُن مولوی صاحب کو کسی نے نہیں کہا کہ یہ لفظ نامناسب ہے کوئی اور لفظ استعمال کریں اس سے صرف جنسی خواہش کا خیال آتا ہے۔ قصور لفظ استعمال کرنے والوں کا ہے یا سمجھنے والوں کا؟
آپ اِس لفظ کو ماروی سرمد کے ذاتی عقائد یا کردار سے جوڑ کر گالی بنا رہے ہیں تو پھر آپ کی سوچ کو سات سلام۔ بہت سے لوگوں نے اِس نعرے کے پیچھے کی مثبت سوچ یا مطالبات کو واضح بھی کیا پر پھر بھی ہم لکیر کے فقیر رہے، بس جسم کہا تو جنسی خواہش سے جوڑ دو۔
میرا جسم ہو یا میرا وجود اُس پر حق تو میرا ہی ہے نہ۔ کیا رب کائنات نے ہر انسان کو عقل و شعور کے ساتھ پیدا نہیں کیا؟
انگور کا پھل رب نے تخلیق کیا اور لوگوں نے اُس سے شراب بھی بنائی اور سرکہ بھی، سوچ کا عمل دخل ہے نہ۔ اِس نعرے کو مثبت رُخ سے دیکھیں تو آپ کو وہ بچیاں نظر آئیں گئ جو کبھی کم عمری کی شادی، کبھی جبری مشقت، کبھی ملکوں کے تشدد, کبھی وٹّہ سٹّہ کی شکار ہوئیں۔
ہمیں یہاں وہ عورتیں نظر آئیں گی جو گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں اور اُن کا جسم نہ ختم ہونے والے درد کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ یہاں ہمیں وہ عورتیں نظر آئیں گی جو کبھی کھانے میں دیر کبھی سالن ٹھنڈے ہونے اور کبھی سحری میں نہ جاگنے کے چھوٹے جرم کی پاداش میں مار دی گئیں۔ اِس لفظ کے پیچھے کئی زینب، کئی حوض نور، کئ شازیہ اور ان گنت ایسے نام نظر آئیں گے جن کے معصوم جسموں کو صرف اپنی جنسی خواہش کی تسکین کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
کتنی عورتیں ایسی نظر آئیں گی جو بنا کسی صحت کی سہولت کے حصول کے زچگی کے دوران موت کی آغوش میں چلی گئیں، جن کو بنا کسی وقفے کے بچے پیدا کرنے پر اِس لئے مجبور کیا گیا کہ وہ بیٹیاں پیدا کرنے کی سزاوار تھیں اور شوہر اور سسرال والوں کو بیٹا چاہیے تھا۔ یہاں ہمیں ڈاکٹر نمرتا کی لاش بھی نظر آئے گی جس کی آنکھوں میں کئی خواب بجھ گئے، کئ ایسی لڑکیاں نظر آئیں گی جن کو اُن کی مرضی کے خلاف بیاہ دیا گیا۔
وہ عورتیں اور بچیاں بھی نظر آئیں گی جو گھر سے تعلیم حاصل کرنے یا روزی کمانے نکلیں اور انہیں ہراسمنٹ کا شکار بنایا گیا۔ وہ لڑکیاں نظر آئیں گی جنہوں نے کسی سے شادی سے انکار کیا گیا اور اُن کو تیزاب سے جلا دیا گیا۔ مرضی کا مطلب ہی میری چھوٹی سی عقل میں یہ آیا کہ میری نہ کو قبول کیا جائے، میری حفاظت کو اہمیت دی جائے، مجھے تمام تشدد سے دور رکھا جائے، یہ سمجھا جائے کہ میرے جسم کو میں ان طریقوں، رویوں اور سوچوں کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتی تو یہ میری مرضی ہے۔
نکاح بھی تو اسی مرضی کا نام ہے تو کیوں مرضی کو زنا سے تشبیہ دیا جائے نکاح سے نہیں۔ آپ ماروی سرمد یا کسی اور فیمنسٹ کے نظریے یا اُس کے کام کو نا پسند کریں آپ کی مرضی،عورت مارچ میں نہ جائیں آپ کی مرضی اُس کے خلاف ہوں آپ کی مرضی پر سوچ کو الفاظ کو کسی کے ذاتی کردار سے جوڑ کر منفی اثرات نہ پھیلائیں، جینے دیں۔ میری مرضی کی حقیقت کو خانجنگی نہ بنائیں۔