سینیٹ سندھ کی آواز سے محروم کیوں؟
آن لائن انڈس رپورٹر | ۲ ماہ پہلے

ایوان سینیٹ بلاشبہ ایک آئینی پلیٹ فارم ہے، جہاں پاکستان کے چاروں صوبوں کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی فراہم کی گئی ہے اور یہ ملک کا شاید واحد آئینی ادارہ ہے کہ جس میں تمام صوبے یکساں بنیاد پر نمائندگی حاصل کرتے ہیں پر اس کے باوجود اس اہم آئینی ایوان کے اندر صوبہ سندھ کی آواز بہت کم حد تک ہی بلند ہوتی نظر آتی ہے۔
اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ کے عوام ایک عرصے سے سراپا احتجاج بھی ہیں تو پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں کیوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ سندھ سے سو فیصد عوامی مینڈیٹ رکھنے والی جماعت ہونے کے باعث سینیٹ میں سندھ والوں کو نمائندگی سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال سندھ سے منتخب سینیٹ کے نمائندگان ہیں جن میں اکثریت دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی ہے۔
سندھ کے باشعور عوام سمجھتے ہیں کہ سینیٹ میں خاطر خواہ نمائندگی نہ ہونے کے باعث ان کے اجتماعی مسائل کے لئے ایوان بالا میں آواز بلند نہیں ہوتی جس سے ان کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر سینیٹر رحمان ملک، سینیٹر رضا ربانی ہوں یا سلیم مانڈوی وال کا نام لے لیں یا پھر شیری رحمان صاحبہ ہی کیوں نہ ہوں یہ تمام افراد سندھ سے سینیٹر منتخب قرار پاتے ہیں پر شاید ہی انہوں نے کبھی سندھ کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار، پانی کے حق پر ڈاکے، این ایف سی کے حصے میں ناجائز کٹوتی سمیت سندھ کے دارالحکومت کراچی میں غیرملکیوں کی غیرقانونی آبادکاری جیسے اہم اور حساس مسائل پر کھل کر بات کی ہو یا وفاق کے محکموں میں سندھ کے کوٹا پر عمل نہ ہونے کے باعث ہزاروں نوکریاں دیگر صوبوں کو دئے جانے سے صوبہ سندھ کے ہزاروں نوجوانوں کے حق پر پڑنے والے ڈاکے کو ایوان بالا میں ظاہر کیا ہو۔
سینیٹر شیری رحمان اور سلیم مانڈوی والا کا تعلق سندھ کے دارالحکومت کراچی سے ہونے کے باوجود انہون نے کبهی بهی ايوان بالا ميں سندھ کی عوام کے حقيقی مسائل پر کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھائی جس سے کئے سوالات بهي جنم ليتی ہيں۔
ايک اور چيز جس کی بازگشت ہو رہی ہے وه يے کہ آئنده سینیٹ اليکشن ميں سندھ کی کوٹا سے پنجاب سے تعلق رکهنے والے سياستدان قمر الزمان کائره کو بهی منتخب کرايا جائيگا اور عين ممکن ہے کہ پهر وه سینیٹ چیئرمین بھی بن جائیں۔
ہم قمر الزمان کائره کو ايک مدبر سياستدان سمجهتے ہیں پر انہيں سندھ کی کوٹا سے سینیٹر منتخب کرانے کا ممکنہ فيصلے سے اختلاف راء بهی رکهتے ہيں کيونکہ اس طرح کے اعمال سے سندھ کے عوام کی آئينی و قانونی حقوق کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، لهذا اب اس تسلسل کا خاتمہ ہونا چاہيئے.
بہرحال ایک بار پھر سینیٹ کے انتخابات قریب آں پنہچے ہیں اور سندھی عوام کا سو فیصد مینڈیٹ رکھنے والی جماعت پیپلز پارٹی ہی ہے اور اسی جماعت کے سینیٹرز زیادہ تعداد میں منتخب بھی ہوں گے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے گھر یعنی صوبہ سندھ کو سینیٹ میں حقیقی نمائندگی فراہم کرتی ہے یا اس بار بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنمائوں کو خوش کرنے کے لئے ٹکٹس تقسیم کئے جائیں گے، جس سے سندھ ایک بار پھر اگلے 6 برس تک ایوان بالا میں نمائندگی سے محروم رہ جائے گا۔

سینیٹ سندھ کی آواز سے محروم کیوں؟
آن لائن انڈس رپورٹر | ۲ ماہ پہلے

ایوان سینیٹ بلاشبہ ایک آئینی پلیٹ فارم ہے، جہاں پاکستان کے چاروں صوبوں کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی فراہم کی گئی ہے اور یہ ملک کا شاید واحد آئینی ادارہ ہے کہ جس میں تمام صوبے یکساں بنیاد پر نمائندگی حاصل کرتے ہیں پر اس کے باوجود اس اہم آئینی ایوان کے اندر صوبہ سندھ کی آواز بہت کم حد تک ہی بلند ہوتی نظر آتی ہے۔
اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ کے عوام ایک عرصے سے سراپا احتجاج بھی ہیں تو پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں کیوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ سندھ سے سو فیصد عوامی مینڈیٹ رکھنے والی جماعت ہونے کے باعث سینیٹ میں سندھ والوں کو نمائندگی سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال سندھ سے منتخب سینیٹ کے نمائندگان ہیں جن میں اکثریت دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی ہے۔
سندھ کے باشعور عوام سمجھتے ہیں کہ سینیٹ میں خاطر خواہ نمائندگی نہ ہونے کے باعث ان کے اجتماعی مسائل کے لئے ایوان بالا میں آواز بلند نہیں ہوتی جس سے ان کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر سینیٹر رحمان ملک، سینیٹر رضا ربانی ہوں یا سلیم مانڈوی وال کا نام لے لیں یا پھر شیری رحمان صاحبہ ہی کیوں نہ ہوں یہ تمام افراد سندھ سے سینیٹر منتخب قرار پاتے ہیں پر شاید ہی انہوں نے کبھی سندھ کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار، پانی کے حق پر ڈاکے، این ایف سی کے حصے میں ناجائز کٹوتی سمیت سندھ کے دارالحکومت کراچی میں غیرملکیوں کی غیرقانونی آبادکاری جیسے اہم اور حساس مسائل پر کھل کر بات کی ہو یا وفاق کے محکموں میں سندھ کے کوٹا پر عمل نہ ہونے کے باعث ہزاروں نوکریاں دیگر صوبوں کو دئے جانے سے صوبہ سندھ کے ہزاروں نوجوانوں کے حق پر پڑنے والے ڈاکے کو ایوان بالا میں ظاہر کیا ہو۔
سینیٹر شیری رحمان اور سلیم مانڈوی والا کا تعلق سندھ کے دارالحکومت کراچی سے ہونے کے باوجود انہون نے کبهی بهی ايوان بالا ميں سندھ کی عوام کے حقيقی مسائل پر کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھائی جس سے کئے سوالات بهي جنم ليتی ہيں۔
ايک اور چيز جس کی بازگشت ہو رہی ہے وه يے کہ آئنده سینیٹ اليکشن ميں سندھ کی کوٹا سے پنجاب سے تعلق رکهنے والے سياستدان قمر الزمان کائره کو بهی منتخب کرايا جائيگا اور عين ممکن ہے کہ پهر وه سینیٹ چیئرمین بھی بن جائیں۔
ہم قمر الزمان کائره کو ايک مدبر سياستدان سمجهتے ہیں پر انہيں سندھ کی کوٹا سے سینیٹر منتخب کرانے کا ممکنہ فيصلے سے اختلاف راء بهی رکهتے ہيں کيونکہ اس طرح کے اعمال سے سندھ کے عوام کی آئينی و قانونی حقوق کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، لهذا اب اس تسلسل کا خاتمہ ہونا چاہيئے.
بہرحال ایک بار پھر سینیٹ کے انتخابات قریب آں پنہچے ہیں اور سندھی عوام کا سو فیصد مینڈیٹ رکھنے والی جماعت پیپلز پارٹی ہی ہے اور اسی جماعت کے سینیٹرز زیادہ تعداد میں منتخب بھی ہوں گے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے گھر یعنی صوبہ سندھ کو سینیٹ میں حقیقی نمائندگی فراہم کرتی ہے یا اس بار بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنمائوں کو خوش کرنے کے لئے ٹکٹس تقسیم کئے جائیں گے، جس سے سندھ ایک بار پھر اگلے 6 برس تک ایوان بالا میں نمائندگی سے محروم رہ جائے گا۔