سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی عدالتی کارروائی مکمل، فیصلہ ساڑھے 7 بجے سنایا جائیگا

news-details

اسلام آباد:(جمعرات 07 اپريل 2022ع) سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی عدالتی کارروائی مکمل ہوگئی، فیصلہ 7 بجکر 30 منٹ پر سنایا جائے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک بات نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے، قومی اسمبلی بحال ہوگی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا، ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں ؟ جس پر وکیل صدر مملکت علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا ؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی ؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے ؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا ؟ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے ؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے ؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے، وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔
صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دے دیا۔ علی ظفر نے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔ علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر بھی موجود ہے، اپوزیشن سے تجاویز بھی لے لیں، موجودہ مینڈیٹ 2018 کی اسمبلی کا ہے، آج اگر کوئی حکومت بنائے گا تو کتنی مستحکم ہوگی۔ عدالت نے اپوزیشن لیڈر کو روسٹرم پر بلالیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سری لنکا میں بجلی اور دیگر سہولیات کیلئے بھی پیسہ نہیں بچا، آج روپے کی قدر کم ہوگئی، ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے، اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا۔ شہباز شریف نے کہا کہ عدلیہ کی بہت عزت کرتا ہوں، عام آدمی ہوں، قانونی بات نہیں کروں گا، عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے، اسپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی، ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا، جو بلنڈر ہوئے ان کی توثیق اور سزا نہ دیئے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا، اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کو عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔
لیگی ہنما شہباز شریف نے کہا کہ بطور اپوزہشن لیڈر چارٹڈ آف اکنامکس کی پیش کش کی، 2018 میں ڈالر 125 روپے کا تھا، اب ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، پارلیمنٹ کو اس کا کام کرنا چاہیے، پارلیمنٹ ارکان کو فیصلہ کرنے دینا چاہئے، پی ٹی آئی نے بھی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، اپنی پہلی تقریر میں چارٹر آف اکانومی کی بات کی تھی، عوام بھوکی ہو تو ملک کو قائد کا پاکستان کیسے کہیں گے، مطمئن ضمیر کیساتھ قبر میں جاؤں گا، سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا، آج بھی کہتا ہوں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں۔ عدالت نے فریقین دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو شام ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا۔