تحریک عدم اعتماد: قومی اسمبلی کا اجلاس وقفے کے بعد دوبارہ دو گھنٹے کے تاخیر سے شروع

news-details

اسلام آباد:(هفته 09 اپريل 2022ع) تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کےلیے قومی اسمبلی کا اجلاس صبح ساڑھے 10 بجے شروع ہوا اور آدھا گھنٹہ جاری رہنے کے بعد ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا گیا جس کے بعد اجلاس دوبارہ دو گھنٹے تاخیر سے ڈھائی بجے شروع ہوا۔ اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن کے 176 اور حکومت کے تقریبا 100 ارکان شریک ہیں۔
اسپیکر اسد قیصر نے وقفہ سوالات کا آغاز کرادیا تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے فلور مانگ لیا۔ شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی بنچز سے غدار غدار کے نعرے لگے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پرسوں پاکستان کی تاریخ میں تابناک دن تھا جب عدالت نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے وزیراعظم اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ آج سلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست فاش دینے جارہا ہوں، آج آپ کو چاہیے کہ صحیح معنوں میں اسپیکر کا کردار ادا کرکے سنہری حروف میں نام درج کرائیں۔ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی بنچز سے بھکاری، امریکہ کے غلام کی نعرے بازی کی جاتی رہی۔
اسپیکر نے عالمی سازش کا ذکر کرتے ہوئے اس موضوع پر بحث کرانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن نے شور شرابا کیا۔ اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر من و عن عمل کرونگا۔ شہباز شریف نے اسپیکر کو ٹوکا کہ آپ سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کرسکتے، اگر آپ ایسے کرینگے تو بات بہت دور تک جائے گی۔ اپوزیشن لیڈر نے ایوان میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ دیا جس میں آج اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا کہا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئینی طریقہ سے تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرینگے، پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری پڑی ہے، 12 اکتوبر 1999 کو بھی آئین شکنی ہوئی، عدالتی تاریخ کا حصہ ہے کہ اعلی عدلیہ نے ڈکٹیٹر کو آئین میں ترمیم کی اجازت دی، عمران خان کہتے ہیں کہ مایوس ہوں لیکن اعلی عدلیہ کا احترام کروں گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدلیہ نے ازخود نوٹس کیوں لیا اور اپوزیشن عدالت کیوں گئی اس کا پس منظر ہے، ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد سے انکار نہیں کیا، انھوں نے کہا کہ اگر سازش ہو رہی ہے تو اس کی تحقیقات ضروری ہیں، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اس مراسلے کو دیکھتی ہے تو اسے سنگین قرار دے کر دو فیصلے کرتی ہے، اسلام آباد اور واشنگٹن میں سفارتی احتجاج کیا جاتا ہے جبکہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے اس معاملہ کو رکھا جاتا ہے۔
وقفے کے دوران حکومت اوراپوزیشن اراکین ایک بنچ پر آگئے اور آپس میں گھل مل گئے۔ ارکان کی ایوان میں ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ ہوئی۔ متحدہ اپوزیشن کے وفد نے صدارتی چیمبر میں اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کی جس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، عامر ڈوگر جبکہ اپوزیشن کی جانب سے بلاول بھٹو، مولانا اسعد محمود، رانا ثناء اللہ، ایاز صادق، نوید قمر شریک ہوئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے تحفظات سے اسپیکر کو آگاہ کرتے ہوئے فوری ووٹنگ کروانے اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق اجلاس کو چلانے کا مطالبہ کیا۔ اپوزیشن نے کہا کہ ایوان کا ماحول حکومتی ممبران خراب کر رہے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر آج ہی ووٹنگ ہوگی اگر ووٹنگ نہ ہوئی تو آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردیں گے۔
اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ حکومتی ارکان کہہ رہے ہیں کہ آپ افطار تک ہماری تقاریر سنیں افطار کے بعد تحریک پر ووٹنگ کرائیں گے۔ ن لیگ کی رہنما مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اسپیکر کے ساتھ ووٹنگ ملتوی کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہو، ووٹنگ آج ہی ہوگی، اپوزیشن نے حکومتی ارکان کی کوئی شرط نہیں مانی، آج ہمارا صرف ایک ایجنڈا ہے اور وہ ہے ووٹنگ۔ دو گھنٹے تاخیر کے بعد پینل آف چیئر امجد نیازی کی زیر صدارت اجلاس شروع ہوا۔ جس میں شاہ محمود نے تقریر کا سلسلہ جاری رکھا۔ واضح رہے کہ آج اجلاس کے ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ چوتھے نمبر پر ہے۔ 6 نکاتی ایجنڈے میں وقفہ سوالات اور دو توجہ دلاؤ نوٹس بھی شامل ہیں جب کہ نقطہ اعتراض کو بھی ایجنڈا میں شامل کیا گیا ہے۔