روحانیت کیا ھے؟

news-details

روحانیت کیا ھے؟ اگر أأپکی نظر می فقط پانچ وقت نماز پڑہنا ہے تو معظرت۔ ایسے سجدے تو شیطان نے بھی بھت کیے تھے ۔ اگر اپکا دین اور عبادت نی اپکو خود غرض اور مغرور بنا دیا ھے اور اپ دوسروں کی مختلف رأٔے تک سننا اور سمجھنا پسند نھی کرتے تو جناب غور کیجیے اپ مذھبی نہیں شدت پسند ہیں . رب کو اسکے بندوں میں ڈھونڈنا اور انھین انکے مختلف نظریے عقیدے اور خیالات کے باوجود سننا ھی اصل ظرف ھے . قرآن میں دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں : آدمی اور انسان , خدا کی منشا یہ ہے کہ انسان حیوانی وجود سے اخلاقی وجود میں آئے . آدمی حیوانی وجود ہے. اور انسان اخلاقی وجود ہے . اور اس لیول تک آنے کے لئے آپ کو تین چیزوں کے بیج کشمکش سے گزرنا ہوگا , یہ کشمکش آپ کے اندر تین چیزوں کے درمیان ہوگی یعنی علم, عقل , اور عشق اور اس کے بعد ہی آپ روحانیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتے ہیں. یہاں جس عشق کی بات کی گئی ہے یہ وہ عشق ھے جو مولانا جلال الدین رومی کو ہوا , یہ وہ جو مولائے کائنات کو ہوا . پر صوفیاء کرام کے یہاں عقل اور علم دونوں بہت پیچھے رہنے کی چیزیں ہیں. علم تو نام ہی صرف جاننے کا ہے وہ چیزیں جنہیں ہم دیکھ سکتے ہیں چھو سکتے ہیں اور سن سکتے ہیں. یعنی تمام مادی اشیاء کا علم . جب کہ روحانیت بالکل مختلف چیز ہے یہ ایک الگ ہی دنیا ہے اور یہاں کام کی چیز کو نہ دیکھ سکتے ہیں , نہ سن سکتے ہیں , نہ چھو سکتے ہیں . تو وہ تو کوئی اور ہی چیز ہی جو ان چیزوں کا علم دے . اگر علم آپ کے خیال میں صرف کتابوں کا انبار ہے تو معذرت کے ساتھ قرآن کے الفاظ میں تو یے گدھوں پر لد ی ہیں . اگر آپ کا علم عشق بن کے احساس بن کے آدمی کے اندر سما گیا تو وہ عرفان ہے اور اگر کوئی علم اور عقل عرفان کے لیے راستہ نہ بنے تو وہ بے کار ہے. روحانیت میں صوفیاء کے ہاں علم اورعقل بہت پیچھے رہنے کی چیزیں ہیں انسان کا احساس علم کی اس سطح تک پہنچ جاتا ہے جسے عشق کہتے ہیں جسے وجدان کہتے ہیں انگریزی زبان میں اس کو ایکسٹیسی کہتے ہیں
اور علم جب وجدان کی سطح پر پہنچ جاتا ہے تو یہ سب صرف عشق کی بدولت ہی ممکن ہے علم دلیل اور استدلال کا نہیں ہوتا اصل علم تو وہ ہے جس میں احترام شامل ہوں دیکھیں قرآن کی دلیل بھی کہانی سے
ہے اور کہانیاں کیا ہیں ہم سے پچھلے لوگوں کے تجربوں کا تعظیم و تکریم سے بیان ہے . علم تو موازنہ کرنے لگتا ہے ,فیصلہ کرنے لگتا ہے, اور آگے نکلنے کی جستجو میں رہتا ہے. یہ تو عشق ہے جو عرفان دیتا ہے جذب کرنا سکھاتا ہے عقل جذب کرنا نہیں سکھاتی , یہ تو کہتی ہے جو کچھ اندر ہے اسے بھی باہر لے آئے , عشق کمال کی چیز ہے جو کہ باہر کی دنیا کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے , اور پھر باہر کی دنیا کو دیکھتا ہے تو وہ دنیا ہی دوسری ہوتی ہے یہ دنیا وہ نہیں ہوتی جس کو میزان میں تولا جا سکے, نہ ہی اس میں انا شامل ہوتی ہے. یہاں دو اور دو چار نہیں ہوتے یہاں مکمل سربسجود ہونا ہوتا ہے . میرا کچھ نہیں اور سب کچھ تمہارا ہے جو سب کچھ دے کے ملتا ہے وہ سب کچھ لے کر نہیں ملتا تو وہ لوگ جو صاحب دولت ہیں جن کے پاس گننے کو بہت کچھ ہے پر وہ اصل میں خالی ہیں اور وہ صاحب دل جن کے پاس گننے
کو کچھ نہیں پر دینے کو بہت کچھ ہے , اور یہی لوگ ہیں جو کہ باآسانی روحانیت تک پہنچ جاتے ہیں ....

سلمہ سومرو