اسلام آباد: (جمعرات: 28 اگست2023ء) سپریم کورٹ میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے 2017 کے دھرنے سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت، تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن نے بھی اپنی اپنی درخواست واپس لے لی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں تو اپنا متبادل مقرر کر کے جائیں، پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، یہ ریگولر بنچ ہے خصوصی بنچ نہیں، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں لیکن یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے، اس لئے اس بنچ کے سامنے نہیں لگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لے رہے، کوئی وجہ ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی خاص وجہ نہیں ہے صرف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب کیوں واپس لینا چاہتے ہیں، پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔ اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ نظرثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی، میں اپنا بیان دے رہا ہوں۔ وکیل پیمرا حافظ احسان نے کہا کہ میں بھی اپنی نظرثانی اپیل واپس لے رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں، یوٹیوب چینلز پر تبصرے کئے جاتے ہیں۔
دوران سماعت پی ٹی آئی نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی، وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں، ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں، کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو اتھارٹی میں رہ چکے، وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریر کرتے ہیں، کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں، آ کر بتائیں، ہم پیمرا کی درخواست زیر التواء رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا۔
شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی درخواست کی پیروی جاری رکھنے کی استدعا کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نیا وکیل کرنا ہے یا کور دلائل دینے ہیں، اسے آئندہ سماعت پر دے دینا۔ درخواست گزار اعجاز الحق کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو صرف آئی ایس آئی کی رپورٹ پر کہا تھا کچھ سیاستدانوں نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیئے، ہم نے کسی کا نام نہیں لیا، آپ نے خود سے اخذ کر لیا آپ کا ذکر ہے۔ چیف جسٹس نے اعجازالحق کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ نے دھرنے کی حمایت نہیں کی، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی، کوئی بیان حلفی دے دیں کہ آپ کا مؤقف درست ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی وقت ضائع کیا گیا ملک کو بھی پریشان کئے رکھا، اب آپ سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ملک صاحب آپ جیسے سینئر آدمی سے یہ توقع نہیں تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا سارے اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو فیصلے میں لکھا گیا وہ ٹھیک ہے، بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لکھیں ناں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی درخواست دائر کی تھی یہ بھی لکھیں کہ حکم کہاں سے آیا تھا، اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مٹی پاؤ، نظر انداز کرو تو وہ بھی لکھیں، 12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے، کیا ہوا، اس پر بھی مٹی پاؤ؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہی ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی دلچسپ بات ہے جنہیں نظرثانی دائر کرنا چاہیے تھی، انہوں نے نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک لبیک نے کوئی نظر ثانی دائر نہیں کی، فیصلہ تسلیم کیا، مرحوم خادم رضوی کی اس بات پر تعریف بنتی ہے، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، غلطیاں تسلیم کرنا بڑی بات ہے، پیمرا کو کہا گیا تھا کہ نظرثانی دائر کرنے یا بورڈ میٹنگ میں فیصلہ ہوا، پاکستان میں یہی چلتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نعوذباللہ ،اللہ کی طرف سے نہیں کہیں اور سے حکم آتا ہے، عدالت ضرور آئیں مگر عدالت کو استعمال نہ کریں، اللہ بجا کہتا ہے معاف کرنا یا نہ کرنا اختیار تو ہے مگر پہلے معافی مانگیں تو صحیح، پہلے سچ کو تسلیم تو کریں، اعتراف جرم تو کریں اگر جرم ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ لوگ خادم رضوی تک نہیں پہنچ سکتے اعتراف نہیں کر سکتے، بتائیں نا 2017 میں دھرنا کیسے ہوا، معاملات کیسے چل رہے تھے، ہم نے 12 مئی جیسے واقعات سے سبق نہیں سیکھا، وہ صاحب کدھر ہیں جن کو جمہوریت چاہیے تھی، وہ کینیڈا سے پاکستان کیوں نہیں آئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ جھتے بازی کے رجحان کو آج بھی فروغ دے رہے ہیں، الیکشن کمیشن اگر دھرنا کیس فیصلے پر عملدآمد چاہتا ہے تو اپنے متعلقہ حصہ کا فیصلہ پڑھیں، وکیل الیکشن کمیشن نے متعلقہ پیراگراف پڑھ دیا اس پر عملدامد کہاں ہوا وہ بتائیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ شیخ رشید کے وکیل امام اللہ کنرانی کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرتے ہیں جو وکلا آج پیش نہیں ہوئے، آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں۔
اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے، اگر اس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات ہر عمل سے صحیح سمت میں چلیں گے۔
عدالت نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی یہ درخواستیں نمٹا نہیں رہے، پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم فیصلے کو درست مانتے ہیں نظرثانی نہیں چاہتے، علی ظفر صاحب کیا یہ درست ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ جی درست ہے، ہم فیصلے کو چیلنج نہیں کر رہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جو وکلا آج پیش نہیں ہوئے، آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے 27 اکتوبر تک فریقین کے وکلاء سے تحریری جواب طلب کر لئے۔ بعدازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔