آئی جی پنجاب کو عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم، 24 گھنٹے میں مقدمہ درج نہ ہوا تو ازخودنوٹس لیا جائے گا: سپریم کورٹ

news-details

اسلام آباد: (پير: 07 نومبر2022ء) سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب پولیس کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان پر حملے کا مقدمہ تاحال درج نہیں ہو سکا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کرمنل جسٹس سسٹم کے تحت پولیس خود ایف آئی آر درج کر سکتی ہے، 90 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر گیا اور ابھی تک ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوئی جس پر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے ایف آئی آر درج کرنے سے منع کیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آئی جی پنجاب بتائیں کتنے وقت میں حملے کی ایف آئی آر ہوگی، اگر ایف آئی آر میں تاخیر ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے شواہد ضائع ہو رہے ہیں، 24 گھنٹے میں مقدمہ درج نہ ہوا تو سوموٹو لیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوموٹو نوٹس میں آئی جی صاحب آپ جواب دہ ہونگے، قومی لیڈر کے قتل کی کوشش کی گئی، معاملے کی نزاکت کو سمجھیں، 90 گھنٹے گزر گئے لیکن مقدمہ درج نہیں ہوا، ایف آئی آر کے بغیر تفتیش کیسے ہوگی، ایف آئی آر کے بغیر تو شواہد تبدیل ہوسکتے ہیں، مقدمہ درج نہ ہونے کی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے، قانون کے مطابق کام کریں، عدالت آپ کے ساتھ ہے، آپ افسران سے تفتیش کروائیں، جب تک آپ عہدے پر ہیں کوئی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا، آئی جی صاحب آپ کے کام میں کسی نے مداخلت کی تو عدالت اسکے کام میں مداخلت کرے گی، کتنی دیر میں مقدمہ درج ہو جائے گا؟
آئی جی پنجاب نے عدالت سے کہا کہ مجھے تو صوبائی حکومت نے مقدمہ درج کرنے سے روکا تھا، ایک آپشن یہ بھی ہے کہ جاں بحق شخص کے اہلخانہ کی درخواست پر مقدمہ درج ہو۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ کو دستیاب آپشنز سے عدالت کا سروکار نہیں، واقعے کی تفتیش کریں شواہد اکٹھے کریں، فرانزک کرائیں، صوبائی حکومت کا موقف پولیس افسر سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتا، فوجداری نظام انصاف رکنا نہیں چاہیے، قانون کے مطابق اٹھائے گئے ہر قدم پر عدالت پولیس کو سپورٹ کرے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک قومی سیاست دان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی، ایف آئی آر نہ ہونے کا مطلب ہے کہ پولیس تحقیقات نہیں کر سکے گی، فوجداری نظام عدل میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے، فوجداری نظام عدل عدالت کا استحقاق ہے اس میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔